Thursday 26 January 2012

صوفی: اسلام کی صحیح پہچان؟

'صوفی' یا 'تصوف' کے الفاظ بھلے ہی قرآن میں شامل نہ ہوں، مگر یہ اسلام کی حقیقی روح کی نمائندگی کرتے ہیں۔ قرآن میں موجود لفظ 'الربانیہ'، جس کا مطلب اللہ کی راہ میں بسر ہونے والی زندگی ہے، تقریباً ان اصطلاحات کا متبادل ہے۔

اسلام کے بنیادی ذرائع میں قرآن اور حدیث شامل ہیں۔ تاہم وقت کے ساتھ ان کی دو مختلف تشریحات سامنے آئیں۔ ایک جسے ہم 'سیاسی' کہہ سکتے ہیں، اور دوسری جسے 'روحانی' کہا جا سکتا ہے۔

عباسی دور میں اسلام کی سیاسی تشریح مسلمان دانشوروں اور مصنفوں میں مقبول ہو گئی۔ یہی وہ تعلیم یافتہ طبقہ تھا جس نے اس زمانے میں کتابیں لکھیں۔ جس کی وجہ سے اسلام کی سیاسی تاریخ زیادہ تر کتابوں کا موضوع بنی جبکہ اسلام کے دوسرے پہلو، جیسے کہ انسانی حقوق، معاشی بہتری اور اللہ کے تئیں عقیدت کو نظر انداز کیا گیا۔

تیونس میں ایک عرب ہسپانوی خاندان میں پیدا ہونے والے ابن خلدون نے اس کمی کو محسوس کیا۔ انہوں نے ایک طویل 'مقدمہ' لکھا جس میں انہوں نے تاریخ کو دوبارہ لکھنے کے قوائد وضح کیے۔ انہوں نے سیاست کی بجائے اخلاقی اور روحانی پہلؤں پر توجہ دینے پر زور دیا۔ مگر بد قسمتی سے اس کا کوئی مثبت اثر نہیں ہوا۔

غیر سیاسی بنیادوں پر اسلام کی ایک تعریف صوفیوں نے پیش کی۔ اس میں محبت، بھائی چارے اور سب سے بڑھ کر امن پر زور دیا گیا۔ صوفیوں کا اثر دنیا بھر میں لوگوں نے، خاص طور پر نچلے طبقے کے لوگوں نے، محسوس کیا۔ آج کل بھی عام آدمی کافی حد تک صوفیوں سے متاثر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تشدد کے باوجود لوگ اپنی زیادہ تر زندگی پر امن طریقے سے گزارنے میں کامیاب رہتے ہیں۔

مغربی دنیا میں بھی کئی صوفیوں نے اپنے مراکز قائم کیے ہیں اور امن کا پیغام لوگوں تک پہنچانے میں مصروف ہیں۔ صوفی ہمیشہ محبت، روحانیت کی بات کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں ہر مرد اور عورت کی زندگی کا اصل مقصد اللہ تک پہنچنا ہے۔ ایسے لوگ اپنے روحانی ارتقاء میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ انہیں تشدد کا راستہ اپنانے کی ضرورت نہیں پڑتی اور انہیں دوسروں کے ساتھ پر امن طریقے سے رہنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی۔

مغربی دنیا میں مسلمانوں کے لیے جو نفرت پائی جاتی ہے، اس کا اصل ذمہ دار مسلمانوں کا دانشور طبقہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دانشور مغربی معاشرے کی ایک خاص تصویر پیش کرتے ہیں جس میں اچھائیوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور خامیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس سے مغربی دنیا میں مسلمانوں کے تئیں نفرت اور شک پیدا ہو جاتاہے۔ مغربی دنیا کے خلاف جتنی کارروائیاں ہوئی ہیں ان سب کے پیچھے ایسے ہی افراد کا ہاتھ ہے۔

در اصل صوفی اسلام اسلام کا صحیح چہرہ ہے۔ یہی سچے اسلام کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسلام میں جنگ اور تشدد کی اجازت صرف اپنی جان بچانے کے لیے ہی ہے۔ اس بات کو واضح کرنا ضروری ہو گیا ہے کہ اسلام میں صرف حکومت کو ہتھیار اٹھانے کا حق ہے۔

تو پھر کیا وجہ ہے کہ صوفی اسلام کو مسلم معاشرے میں مرکزی جگہ حاصل نہیں؟ میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ صوفی خود کو میڈیا سے بالکل علیحدہ رکھتے ہیں۔ وہ صرف نجی جان پہچان کے ذریعے ہی اپنی بات لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ انتہا پسند عناصر جو در اصل اسلام کی نمائندگی نہیں کرتے، اخباروں ، ٹی وی، ریڈیو اور انٹرنیٹ کے ذریعے اپنی بات لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ جس سے وہ کئی لوگوں کو متاثر کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

اس کی ذمہ داری کسی حد تک میڈیا پر بھی عائد ہوتی ہے۔ میڈیا کئی بار صرف سیاسی اور سنسنی خیز خبروں پر ہی توجہ دیتا ہے، جس وجہ سے اسلام انتہا پسندوں کے ساتھ منسلک ہو گیا ہے۔

قرآن اور حدیث ہمیں بار بار انتہا پسندی سے دور رہنے کی ہدایت دیتے ہیں کیونکہ انتہا پسندی سے صرف تباہی ہوتی ہے۔

صرف صوفی اسلام ہی اسلامی اور مغربی دنیا کو جوڑنے کا کام کر سکتا ہے۔ سیاست جنگ اور تباہی سے پنپتی ہے۔ تو جب بھی اسلام کو سیاسی رنگ دیا جاتا ہے ایک منفی ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔ سیاسی اسلام کی بنیاد دوسروں کے ساتھ مقابلہ ہے جبکہ صوفی اسلام کی بنیاد یکجہتی ہے۔

تاہم صوفی اسلام کو اپنا صحیح کردار ادا کرنے کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے۔ ایک تو یہ کہ اس جدید دور میں صوفیوں کو اپنی بات ایک جدید طریقے سے کہنی ہوگی، دوسری یہ کہ انہیں اپنی بات لوگوں کو سمجھانے کے لیے جدید میڈیا کا پورا فائدہ اٹھانا ہوگا۔ اگر یہ دونوں کام کیے جائیں تو صوفی اسلام مغربی دنیا اور اسلام کے درمیان ایک کامیاب کڑی بن سکتا ہے۔

مولانا وحیدالدین خان

نئی دلی

Friday, 17 June, 2005, 13:07 GMT 18:07 PST

BBC URDU.COM

Saturday 31 December 2011

'' ہندوستانی قومیت''

درج ذیل مضمون میں مولانا وحید الدین کے مضمون'' ہندوستانی قومیت'' ١ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ مولانا نے اپنے اس مضمون میں یہ نقطہ نظر اختیار کیا ہے کہ ''وہ چیز جس کو ہم انڈین نیشن ( Indian Nation) کہتے ہیں، اس کے دو دائرے ہیں۔ ایک دائرے میں یکسانیت مطلوب ہے اور دوسرے دائرے میں تنوع۔ یکسانیت والے دائرے میں تفرق برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ مگر تنوع والادائرہ اس سے مختلف ہے۔ یہاں کامیاب زندگی کا راز صرف ایک ہے اور وہ ہے ایک دوسرے کے فرق کو ٹالریٹ (Tolerate) کرنا۔ پہلے میں اگر 'من توشدم تومن شدی 'کا اصول کار فرما ہے، تو دوسرے میں''Let usagree to disagree کا اصول۔''

انھوں نے اپنا نقطہ نظر خاندان کی مثال سے واضح کیا ہے۔جس طرح گھر میں خاندان کے اجتماعی مفاد کے لیے تمام افراد خانہ کی ہم آہنگی مطلوب ہے اور اس کے بر خلاف افراد کے اپنے انفرادی ذوق و رجحان میں آزادی،اسی طرح ملک کے اجتماعی مفاد میں ہم رنگی اور یک جہتی ہونی چاہیے اور انفرادی دائرے میں اپنے اپنے طریقے پر قائم رہنے کی آزادی۔

ان کے نزدیک، مثلاً ملک کے دفاع اور ملک کی کامرانی کے لیے سعی و جہد میں ہر ہندوستانی صرف ہندوستانی ہے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہواور خواہ بھارت کی برتری کسی ایسے ملک پر قائم ہوئی ہو جو کسی ہندوستانی کے ذاتی مذہب کے ماننے والوں کا ملک ہو۔یہاں تک کہ ان کے خیال میں مسئلہ کشمیر کے بارے میں ہر ہندوستانی مسلمان کو حکومت ہند کا، دل اور دماغ، دونوں سے، ہمنوا ہونا چاہیے اور یہ اس کے ہندوستانی شہری ہونے کا تقاضا ہے۔ اس طرح وہ یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ کھیل کے میدان میں بھی ہر ہندوستانی شہری کو خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان، یکساں طور پر اپنے ملک کی جیت کے لیے دل سے خواہاں ہونا چاہیے۔ ہم مولانا کے اس نظریے کو، نہایت ادب کے ساتھ، غیر فطری اور غلط سمجھتے ہیں اور اس کے بارے میں اپنی رائے قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ [مرتّب]

اس میں شبہ نہیں کہ قومی مفاد پر اتحاد اور ذاتی معاملات میں آزادی کا اصول ہی کسی قوم کے اتحاد اور یک جہتی کا ضامن ہے۔ لیکن مولانا نے اس اصول کو جس طرح عملی زندگی سے متعلق کیا ہے، اس سے اتفاق کرنا مشکل ہے۔


مسلمان اپنے مذہبی وجود میں تمام عالم اسلام سے جڑا ہوا ہے۔اس کی بنیادی وجہ وحدت مذہب ہے اور پھر یہ اس کے ملی اور تاریخی شعور کا نتیجہ بھی ہے۔ یہ کوئی خارجی اثر نہیں ہے کہ اسے کھرچ کر اتار دیا جائے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ کوئی ایسی منفی شے بھی نہیں ہے،جسے ختم ہو جانا چاہیے۔

یہ چیز مسلمانوں ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ ہر مذہبی گروہ فطری طور پر اس کا اظہار کرتا ہے۔میں اس ضمن میں ذاتی مشاہدے سے ایک مثال پیش کرتاہوں۔چند سال پہلے میں لاہور سے لیاقت پور گیا۔اس شہر میں ہندو بھی آباد ہیں۔بازار سے گزرتے ہوئے ہم لوگ ایک جوتوں کی دکان پر گئے۔یہ دکان ایک ہندو کی تھی۔اس نے ہمیں چائے کی پیشکش کی اور ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کر دی کہ میں ہندو ہوں ۔اگر پسند کریں تو پیش کروں۔اس اٹھارہ بیس سال کے نوجوان دکان دار نے بھارت کے بارے میں گفتگو کی ۔ اس کی معلومات حیرت انگیز تھیں اور اس کا لب و لہجہ فخر کے جذبات سے لبریز تھا۔ سادہ سی بات ہے، یہ چیز اس کے ہندو ہونے کا فطری نتیجہ ہے۔یہی چیز ہمارے ہاں عیسائیوں میں عیسائی ریاستوں کے بارے میں پائی جاتی ہے۔ اندرا گاندھی جیسی سیکولر لیڈر بھی سقوط ڈھاکہ کے موقع پر فخر کرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ ہم نے ہزار سالہ شکست کا بدلہ لے لیا ہے۔ پھر مسلمانوں کے ساتھ بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی بکھری ہوئی ریاستوں کے اتحاد کی صورت میں ایک بہت بڑی طاقت بن کر ابھر سکتے ہیں۔ ہر باشعور مسلمان اس خواب کو دیکھتا اور اس کی تعبیر چاہتا ہے۔ چنانچہ پاکستانی مسلمان ہو یا سعودی، مراکشی ہو یا روسی، ان کے ملی مفادات یا اجتماعی شعور کا رخ ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب افغانستان میں پاکستان نے روس کے خلاف جنگ لڑی تو عالم اسلام کے تمام خطوں سے مسلمان اس جنگ میں شریک ہوئے، جبکہ ان کی ریاستیں اپنے سیاسی اور بین الاقوامی مصالح کی بنا پر اسے پسند نہیں کرتی تھیں۔

کسی مسلمان سے یہ تقاضا ایک غیر فطری امر ہے کہ وہ اسلامی ریاستوں کی فلاح اور ان کی کامیابی پر خوش نہ ہو۔ جس اصول پر نکاح و طلاق جیسے معاملات میں آزادی دینا ضروری ہے،اسی اصول پر دوسرے ملکوں کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار تعلق کو بھی قبول کر لینا چاہیے۔

بھارتی مسلمان ہو یا کسی اور غیر مسلم ریاست کا شہری،اس سے شہریت کا تقاضا صرف یہ ہے کہ وہ اپنے ملکی قانون (جو اس کے دینی تقاضوں سے متصادم نہ ہو) کی پابند ی کرے۔ کوئی مسلمان اپنے اسلامی اور ملی وجود کی بنا پر کسی غیر مسلم ملک کی نظریاتی اور جغرافی سرحدوں کی حفاظت کا ذمہ دار نہیں ہو سکتا۔ کوئی غیر مسلم ریاست کسی مسلمان کا اپنا گھر ہوتی ہے، یہ شعور اس کے اندر جڑ ہی نہیں پا سکتا،برگ و بار کیسے لائے گا۔

ممکن ہے مولانا کی رائے یہ ہو کہ یہ مسلمانوں کی غلط تربیت کا نتیجہ ہے۔ یہ رائے بوجوہ محل نظر ہے۔ ہمارا مذہب اور خود مولانا کی تحریریں بھی اس پر گواہ ہیں،مسلمانوں کو ایک ملت بننے اور اپنے اندر معاشرتی تنظیم پیدا کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ تعلیمات مسلمان کو اس پر راضی نہیں کر سکتیں کہ وہ بھارت میں رہنے کی وجہ سے بھارتی اور امریکہ میں رہنے کی وجہ سے امریکی بن جائے۔اس کا اسلامی وجود اسے، اوّلاً، ملت اسلامیہ سے جوڑتا ہے۔ یہ جذبہ فطری ہے۔ اس کی جڑیں اسلام کے ساتھ وابستگی کے شعور میں گڑی ہوئی ہیں۔ اس کی تصویب قرآن مجید نے روم وایران کے حوالے سے مکہ میں برپا ہونے والی کشمکش کے حوالے سے کر دی ہے۔ اگر مسلمان محض سلسلہ نبوت کے اشتراک کی وجہ سے اور کفاربت پرستی کے اشتراک کی وجہ سے، ہمدردیوں اور مسرتوں کے اعتبار سے، دو گروہ ہو سکتے ہیں اور قرآن اس جذبے پر کوئی منفی تبصرہ نہیں کرتا، بلکہ پیشین گوئی کر کے اہل کتاب کی کامیابی کی نوید سناتا ہے، تو پھر یہ چیز خود مسلمانوں میں اسلامی ممالک کے بارے میں کس طرح نا پسندیدہ ہو سکتی ہے؟

ہمیں مولانا کے مشن اور مساعی سے گہرا قلبی تعلق ہے،لیکن ان کا یہ نقطہ نظر، قطعاً ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ مذہب سے تعلق اگر احکام و معاملات میں انفرادی آزادی کا مقتضی ہے تو پھر مسلمانوں سے، بحیثیت ملت (اگرچہ وہ بدقسمتی سے سیاسی وحدتوں میں منقسم ہے) قلبی لگاؤ کا مقتضی کیوں نہیں ہے؟ شیعہ، ایرانی انقلاب سے مسرت پائیں، اہل حدیث سعودی عرب کی کامیابیوں پر خوش ہوں اور یہ سب کسی مسلمان فرداورکسی مسلمان ملک کی فائز المرامی پر خوشی محسوس نہ کریں، یہ کیسے ممکن ہے؟

اگر مسلمانوں کی قلبی وابستگی کا گراف بنایا جائے تو سب سے نمایاں چیز مذہب سے وابستگی ہو گی۔یہ ایک امرواقعہ ہے اور مولانا کا نقطہ نظر اس کو نظرانداز کر دیتا ہے۔


ـــــــــــــــــــــــــ

١- ماہنامہ الرسالہ، فروری ١٩٩٥

طالب محسن

Monday 26 December 2011

اسلام میں خواتیں کا مرتبہ

پروفیسر اختر الواسع

فرمان  الٰہی ہے : ظہر الفساد فی البر و البحر بما کسبت ایدی الناس انسانی کرتوتوں کے سبب خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا۔

اس لیے فساد کسی بھی نوعیت کا ہو اس کی نسبت کسی مذہب او راس کی تعلیمات کی طرف نہیں کی جاسکتی۔ یہ ممکن ہے کہ فساد پھیلانے والے کوئی مذہبی لبادہ اوڑھے ہوئے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے مزعومات کی تشہیر و تنفیذ میں مذہبی تعلیمات کو بھی توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہوں۔ لیکن مذہب اپنی حقیقت میں فساد اور بگاڑ کا ذریعہ نہیں ہوسکتا کیوں کہ اس کا وجود ہی فساد اور بگاڑ کے خاتمے کے لیے ہواہے۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم انسان کو اس کے کام کے حوالے سے جاننے کے بجائے ، اس کے مذہب، تہذیب، جغرافیے اور زبان سے شناخت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس کے کام بھی ان حوالوں سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔ خواتین کی حیثیت کا مسئلہ بھی کچھ ایسا ہی ہے، جسے ان کی حیثیت کو متاثر کرنے والے افراد کے بجائے اکثر ان کے مذہب کے حوالے سے جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں مسلم خواتین کی حیثیت مختلف اسباب کے تحت موجودہ دنیا کا ایک بڑا مسئلہ ہے اور اکثر ذرائع ابلاغ کی سرخیوں میں بھی رہتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں مسلم خواتین کی پسماندگی بہت زیادہ ہے۔ تعلیم، معیشت، سیاست اور دیگر شعبہ جات زندگی میں وہ اپنی Counterpartsسے بہت پیچھے ہیں۔ لیکن مسلم خواتین کی اس پسماندگی کا تعلق ان کے مذہب یا مذہبی تعلیمات سے نہیں ہے جیسا کہ اکثر پیش کیا جاتا ہے۔ بلکہ یہ ان سماجوں کے جبر کا نتیجہ ہے جن میں رہنے پر وہ مجبو رہیں اور اس طرح کے جبر کا شکار صرف مسلم خواتین نہیں ہیں بلکہ مختلف حوالوں سے دنیا بھر کے مختلف سماجوں میں رہنے والی خواتین اس کا شکار ہیں۔ کہیں پر ان کے حقوق و اختیارات سلب کر لئے گئے ہیں تو کہیں حقوق و آزادی کے نام پر خواتین سے ان چیزوں کا مطالبہ کیا جاتاہے جن کی متحمل وہ نہیں ہوسکتیں۔
اسلام دین فطرت ہے۔ انسان کے خالق و مالک نے اسے اس لیے منتخب کیا ہے کہ اس پر عمل پیرا ہو کر وہ اس معیار مطلوب تک پہنچ سکتا ہے جس میں اللہ تعالی کی رضا ہے۔ خواتین کی حیثیت کے حوالے سے اسلام کی تعلیمات وہی ہیں جو کسی بھی مثالی (آئیڈیل) معاشرے میں خواتین کو حاصل ہوسکتی ہے اور اسلامی تاریخ میں ایسے معاشروں کا وجود ملتا ہے جن میں اسلامی تعلیمات پورے طور پر جاری و ساری تھیں اور خواتین کو وہ تمام حقوق و اختیارات حاصل تھے جن کی توقع کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے میں خواتین کے لئے کی جاسکتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آگے چل کر جب مسلم معاشرے اسلامی تعلیمات سے گریزاں ہوئے تو خواتین کی حیثیت بھی متاثر ہوئی اور انہیں محرومیوں اور مایوسیوں سے بھی دوچار ہونا پڑا۔
ڈاکٹر علی شریعتی کا شمار جدید اسلامی فکر کی تشکیل میں ایک اہم ستون کے طور پر ہوتا ہے۔ ان کی خاص بات یہ ہے کہ انقلابی فکر کے باوجود ان میں اسلامی روایت سے انحراف نہیں پایا جاتا۔ وہ دنیا کے تمام مسائل کو اسلامی نقطہ نظر سے دیکھتے، سمجھتے اور پھر ان کا حل پیش کرتے ہیں۔ دور جدید میں خواتین کی حیثیت کے حوالے سے جو سوالات قائم کئے گئے ہیں اور مسلمانوں کے بعض رویوں کے سبب اسلام کو مطعون کرنے کی جو کوششیں ہوئی ہیں، ایک اسلامی مفکر کے طور پر ڈاکٹر شریعتی نے ان سوالات و اعتراضات کا بھی جائزہ لیا ہے اور اس حوالے سے اسلام کی صحیح اور واضح پوزیشن کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ انہوںنے دور اول کے اسلامی معاشرے سے ایسی مثالیں بھی پیش کی ہیں جس میں خواتین اسلام نہ صرف یہ کہ ایک ترقی یافتہ معاشرے کا حصہ تھیں بلکہ اس میں ایک فعال کردار بھی رکھتی تھیں۔ڈاکٹر عفت فاروقی ایک ایسی اسکالر ہیں جو مسائل کا ادراک ہی نہیں بلکہ ان کے حل تک پہنچنے کا حوصلہ بھی رکھتی ہیں۔انہوں نےبھی اسلام میں خواتین کی حیثیت کے بارے میں بہت ہی معروضی اور منصفانہ خیالات کا اظہار کیا ہے اور سبھی شعبوں میں اہم کردار ادا کرنے اور معاشرہ کو بہتر بنانے میں خواتین کے کردار کی اہمیت سے روشناس کرایا ہے۔

ڈائریکٹر:ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیزجامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

Monday 19 December 2011

خواتین اسلام


مولانا وحید الدین خان

 
 

اسلام کی تاریخ خواتین کے اعلیٰ واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ خواتین کو اسلامی معاشرہ میں کتنا اونچا مقام حاصل ہے۔ اور انھوں نے اسلام کے دائرہ میں رہ کر کتنے بڑے بڑے کارنامے انجام دیے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ عائشہ بنت ابی بکرؓ نہایت ذہین خاتون تھیں۔ ان کی ذہانت اسلام میں آ کر نہ ضائع ہوئی اور نہ غیر استعمال شدہ رہ گئی۔ بلکہ اس نے اپنے استعمال کا نہایت اعلیٰ اور وسیع میدان پا لیا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کافی کم عمر تھیں اس بنا پر آپ کی وفات کے بعد تقریباً نصف صدی تک دنیا میں رہیں اور اس پوری امت میں امت کے لیے دین کو جاننے کا مستند ذریعہ بنی رہیں۔

حضرت عائشہ کی روایتوں کی تعداد ٢٢١٠ تک شمار کی گئی ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگوؤں اور تقریروں کو نہایت صحت کے ساتھ اپنے ذہن میں محفوظ کر لیتی تھیں اور ان سے مسائل اخذ کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتی تھیں۔ کہا جاتاہے کہ شرعی احکام کا تقریباً چوتھائی حصہ حضرت عائشہؓ سے منقول ہے۔ آپ کا علم اور تفقہ اس قدر مسلّم تھا کہ صحابہ کے درمیان جب کسی معاملہ میں سوال پیدا ہوتا تو وہ حضرت عائشہؓ سے دریافت کرتے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کو جب بھی کسی حدیث میں اشکال پیش آتا تو ہم عائشہؓ سے رجوع کرتے، ان کے یہاں ضرور اس کے متعلق ہم کو کوئی علم مل جاتا (ما اشکل علینا اصحاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم حدث قط فسألنا عائشة الا وجدنا عندہا منہ علما. اخرجہ الترمذی)

اس قسم کی باتوں کی اصل اہمیت یہ نہیں ہے کہ وہ اسلامی تاریخ کی ایک معزز خاتون کی فضیلت کو بتاتی ہیں۔ ان کی اصل اہمیت یہ ہے کہ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں عورتوں کو کتنا بلند درجہ دیا گیا ہے اور ان کی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے اسلام میں کتنا وسیع میدان کھلا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات اسلام کے امتیاز کو بتا رہے ہیں نہ کہ محض کسی ایک شخص کے ذاتی امتیاز کو۔

اسلام نے حضرت عائشہؓ کی صلاحیتوں کو اس حد تک ترقی دی کہ انھوں نے اہم سیاسی اور سماجی خدمات انجام دیں۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (١٩٨٤) میں ان کی خدمات کا اعتراف ان الفاظ میں کیا گیا ہے:

 
 

Aisha, the third wife of the Prophet Muhammad, who played a role of some political importance after the Prophet's death(1/167)

''عائشہ جو پیغمبر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری اہلیہ تھیں، انہوں نے پیغمبر کی وفات کے بعد کچھ ایسے رول ادا کیے جو سیاسی اہمیت رکھنے والے تھے۔''

 
 

یہاں خواتین اسلام کے سلسلہ میں چند واقعات نقل کیے جاتے ہیں۔

 
 

دو خواتین

روی البخاری و مسلم ان علیا سمع رسول الله صلی الله علیہ وسلم یقول: خیر نسائہا مریم بنت عمران وخیر نسائہا خدیجة بنت خویلد.

''بخاری و مسلم نے حضرت علی سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا: ان کی سب سے بہتر خاتون مریم بنت عمران تھیں اور ان کی سب سے بہتر خاتون خدیجہ بنت خولید ہیں۔''

 
 

فتح الباری میں طیبی کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ 'الضمیر الاول راجع الی الامة التی کانت فیہا مریم والثانی الی ہذہ الامة'۔ یعنی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مریم امت یہود کی سب سے بہتر خاتون تھیں اور حضرت خدیجہؓ امت مسلمہ کی سب سے بہتر خاتون ہیں۔

یہ افضلیت کیوں تھی، اس پر مندرجہ ذیل دو احادیث سے روشنی پڑتی ہے:

 
 

روی البخاری ومسلم عن عائشة انہا قالت: ما غرت علی نساء النبی صلی الله علیہ وسلم الا علی خدیجة، وان لم ادرکہا، قالت : وکان رسول الله صلی الله علیہ وسلم اذا ذبح الشاۃ فیقول ارسلوا بہا الی اصدقاء خدیجة، قالت فاغضبتہ یوما فقلت، خدیجة: فقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم انی قد رزقت حبہا.

''حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں مجھے خدیجہؓ کے سوا کسی کے اوپر غیرت نہیں آئی۔ حالانکہ میں نے ان کا زمانہ نہیں پایا۔ حضرت عائشہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بکری ذبح کرتے تو فرماتے کہ اس میں سے خدیجہ کی دوستوں کو بھیج دو۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک روز مجھے اس پر غصہ آگیا اور میں نے کہا :خدیجہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خدیجہ کی محبت مجھے پلا دی گئی ہے۔''

 
 

روی احمد والطبرانی من طریق مسروق عن عائشة قالت: کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم لا یکاد یخرج من البیت حتی یذکر خدیجة فیحسن الثناء علیہا فذکرہا یوما من الایام فاخذتنی الغیرۃ فقلت ہل کانت الا عجوزا قد ابدلک الله خیرا منہا. فغضب ثم قالا لا و الله ما ابدلنی الله خیرا منہا. آمنت اذ کفر الناس وصدقتنی اذ کذبنی الناس وواستنی بما لہا اذ حرمنی الناس ورزقنی الله منہا الولد دون غیرہا من النسائ.

'' حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدیجہؓ کی تعریف کیے بغیر گھر سے نہ نکلتے تھے۔ ایک روز آپ نے خدیجہؓ کا ذکر فرمایا تو مجھے غیرت آگئی۔ میں نے کہا وہ ایک بڑھیا ہی تو تھیں اور اللہ نے اس کے بدلے آپ کو زیادہ بہتر دے دیا ہے۔ آپ غضب ناک ہوگئے اور فرمایا: خدا کی قسم، نہیں خدا نے مجھے خدیجہ سے بہتر نہیں دیا۔ وہ ایمان لائیں جب کہ لوگوں نے انکار کیا۔ انہوں نے میری تصدیق کی جب کہ لوگوں نے مجھے جھٹلا دیا۔ انہوں نے اپنے مال سے میری مدد کی جب کہ لوگوں نے مجھے محروم کیا۔ اور اللہ نے مجھے ان سے اولاد دی جو دوسری بیویوں سے نہ دی۔''

 
 

حضرت مریم اور حضرت خدیجہ کو تاریخ کی معیاری خواتین کی حیثیت کیوں حاصل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو ہمہ تن اللہ کے حوالے کر دیا۔ انہوں نے اپنی مرضی کو خدا کی مرضی میں ملا دیا۔

یہود کے آخری زمانہ میں ایک ایسی خاتون درکار تھیں جو حضرت مسیح جیسے معجزاتی پیغمبر کی ماں بن سکیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ منصوبہ تھا کہ وہ قوم یہود کے آخری پیغمبر کو باپ کے بغیر پیدا کرے۔ اس مقصد کے لیے ایسی خاتون درکار تھیں جن کی عصمت اور پاکبازی اتنی مسلم ہو کہ کسی کو ان کے بارہ میں ادنیٰ شبہ کی گنجائش نہ رہے۔ حضرت مریم نے اپنی غیر معمولی زندگی سے اس کا ثبوت دیا۔ اس لیے وہ حضرت مسیح کی ماں بنائے جانے کے لیے چن لی گئیں۔

اسی طرح آخری رسول کے حالات کے اعتبار سے ان کو ایسی خاتون کی ضرورت تھی جو اپنی زندگی اور اپنا اثاثہ پوری طرح پیغمبر کے حوالے کر دیں اور کبھی کسی بات پر شکایت نہ کریں۔ حضرت خدیجہؓ کے امتیازی اوصاف کی بنا پر خدا نے ان کو اس خدمت خاص کے لیے چن لیا۔ انہوں نے اپنی زندگی، اپنا اثاثہ، اپنا آرام و راحت، سب کچھ پیغمبر خدا کے لیے وقف کر دیا۔ سخت ترین مصائب کے باوجود کبھی اف نہ کیا۔ ان کی انہیں خصوصیات نے انہیں خدا کی نظر میں اس قابل بنایا کہ وہ پیغمبر آخر الزماں کی رفیقۂ حیات بنیں۔

اسلام کے مشن کے لیے ہر دور میں ایسی عورتوں اور ایسے مردوں کی ضرورت ہوتی ہے جو موجودہ امتحانی دنیا میں زیر عمل لائے جانے والی خدائی منصوبہ میں اپنے آپ کو شامل کریں۔ جو خدا کے کاگ میں اپنا کاگ ملائیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ بے حد صبر آزما عمل ہے، مگر اس میں بھی شک نہیں کہ اس کا اجر بہت زیادہ ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کو قرآن میں خدا کی مدد کرنا کہا گیا ہے۔ پھر جس کو خدا اپنا مددگار ہونے کا اعزاز بخشے اس کے فضل و کمال کا کیا ٹھکانا۔

 
 

بہترین رفیقہ حیات

حضرت خدیجہ بنت خویلد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی اہلیہ تھیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملی اور فرشتہ جبریل نے آپ کو خدا کی پہلی وحی پہنچائی تو آپ پر اس کا شدید تاثر تھا۔ یہ واقعہ غار حرا میں پیش آیا تھا۔ آپ وہاں سے اتر کر اپنے مکان پر آئے، اور حضرت خدیجہ سے تمام واقعہ بیان کرکے فرمایا مجھ کو اپنی جان کا خطرہ ہے۔ اس وقت حضرت خدیجہ نے جو جملہ کہا وہ تاریخ میں ان الفاظ میں محفوظ ہے:

 
 

کلا والله لا یخزیک الله ابداً. انک لتصل الرحم وتقری الضیف وتحمل الکل وتصدق الحدیث وتکسب المعدوم وتعین علی نوائب الحق. (سیرت ابن کثیر جلد اول، ص ٣٨٦)

''ہرگز نہیں، خدا کی قسم اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ رشتہ داروں کے حقوق ادا کرتے ہیں۔ مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں۔ کمزور کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور سچ بات بولتے ہیں۔ ناداروں کی خبر گیری کرتے ہیں اور حق کے معاملے میں ہمیشہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔''

 
 

اس کے بعد حضرت خدیجہ کو یہ خیال ہوا کہ اس بارے میں عیسائی حضرات سے دریافت کریں۔ کیونکہ وہ لوگ آسمانی کتابوں کے حامل ہیں اور وحی اور نبوت کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں۔ چنانچہ وہ ایک عیسائی راہب کے پاس گئیں جو مکہ کے قریب رہتے تھے۔ راہب نے انہیں دیکھ کر پوچھا کہ اے قریش کی معزز خاتون، آپ کس لیے آئی ہیں۔ حضرت خدیجہ نے کہا کہ میں اس لیے آئی ہوں کہ آپ مجھے جبریل کے بارے میں بتائیں کہ وہ کون ہیں۔ راہب نے کہا، سبحان اللہ، وہ خدا کا پاک فرشتہ ہے۔ وہ پیغمبروں کے پاس آتا ہے۔ وہ موسیٰ اور عیسیٰ کے پاس آیا تھا۔

حضرت خدیجہ اس کے بعد ایک اور عیسائی کے پاس گئیں جس کا نام عداس تھا۔ اس سے بھی انہوں نے یہی سوال کیا کہ جبریل کون ہیں۔ عداس نے کہا کہ جبریل خدا کے فرشتے ہیں۔ وہ موسیٰ کے پاس اس وقت تھے جب کہ اللہ نے فرعون کو غرق کیا۔ وہ عیسیٰ پر اترے اور ان کے ذریعہ اللہ نے عیسیٰ کی مدد کی۔

حضرت خدیجہ اس کے بعد ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں۔ وہ جاہلیت کے زمانہ میں عیسائی ہوگئے تھے۔ وہ ایک بڑے عالم تھے اور انہوں نے انجیل کا ترجمہ سریانی زبان سے عربی میں کیا تھا۔ ورقہ بن نوفل نے حالات سننے کے بعد کہا: اے خدیجہ، اگر تم نے سچ کہا ہے تو یہ وہی فرشتہ ہے جو عیسیٰ پر آیا تھا، اب وہ محمد کے پاس آیا ہے۔ اس کے بعد حضرت خدیجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر دوبارہ ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں۔ ورقہ نے آپ کی زبان سے حالات سننے کے بعد کہا، آپ کو خوش خبری ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ وہی پیغمبر ہیں جن کی مسیح بن مریم نے بشارت دی تھی۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، قوم آپ کو جھٹلائے گی اور آپ سے لڑے گی۔ اگر میں اس وقت زندہ رہا تو میں ضرور آپ کا ساتھ دوں گا۔ (سیرت ابن کثیر)

 
 

کامل آزادی

قدیم عرب میں ایک رواج تھا جس کو ظِہار کہتے تھے۔ ایک شخص اپنی بیوی سے غصہ ہو کر کہہ دیتا کہ 'انتِ علیّ کظہر اُمیّ'(تو میرے لیے میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے) جو شخص ایسا کہہ دیتا اس کے متعلق سمجھا جاتا کہ اس کی بیوی اس پر حرام ہوگئی۔

مدینہ میں یہ واقعہ ہوا کہ ایک مسلمان حضرت اوس بن صامت نے کسی بات پر اپنی بیوی خولہ بنت ثعلبہ کو ایسا ہی کہہ دیا۔ اب بظاہر خولہ اپنے شوہر کے لیے حرام ہوگئیں۔ ان کے کئی بچے تھے، ان کو سخت پریشانی ہوئی اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور پورا قصہ بتایا۔ اس وقت تک اس بارے میں قرآن میں کوئی حکم نہیں اترا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ میں خیال کرتا ہوں کہ تو اب ان کے لیے حرام ہوگئی۔

یہ سن کر حضرت خولہ فریاد اور شکوہ کرنے لگیں کہ گھر ویران ہو جائے گا۔ میری اولاد تباہ ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، میرے شوہر نے یہ الفاظ تو نہیں کہے کہ میں تم کو طلاق دیتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے موافق جواب نہیں ملا تو وہ اللہ کے آگے رونے گڑ گڑانے لگیں کہ خدایا مجھے اس مصیبت سے بچا۔ میں تجھی سے اس معاملہ میں فریاد کرتی ہوں۔

اس کے بعد سورۂ مجادلہ اتری جس میں ظہار کے بارے میں اسلام کا حکم بتایا گیا ہے۔ یہ سورہ ان الفاظ سے شروع ہوتی ہے:

 
 

''اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو اپنے شوہر کے معاملہ میں تجھ سے جھگڑتی تھی اور اللہ سے فریاد کر رہی تھی۔ اور اللہ تم دونوں کی باتیں سن رہا ہے، بے شک وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔''

 
 

انہیں حضرت خولہ کا واقعہ ہے کہ بعد کے زمانہ میں جبکہ حضرت عمر فاروقؓ اسلامی سلطنت کے خلیفہ تھے۔ ایک روز آپ کہیں جا رہے تھے کہ راستہ میں حضرت خولہ ملیں جو اس وقت بوڑھی ہو چکی تھیں۔ حضرت عمرؓ نے ان کو سلام کیا۔ انہوں نے سلام کا جواب دیا اور پھر کہا: اے عمرؓ ، ایک وقت تھا کہ میں نے تم کو عکاظ کے بازار میں دیکھا تھا۔ اس وقت تم عُمیر کہے جاتے تھے۔ تم ہاتھ میں لکڑی لیے ہوئے بکریاں چراتے تھے۔ پھر وہ وقت آیا کہ تم عمر کہے جانے لگے۔ اور اب تم امیر المومنین کہے جاتے ہو۔ دیکھو، رعایا کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ اور یاد رکھو کہ جو شخص اللہ کی پکڑ سے ڈرتا ہے اس کے لیے دور کا آدمی بھی رشتہ دار کی طرح ہوتا ہے۔ اور جو آدمی موت سے نہیں ڈرتا اس کے بارے میں ڈر ہے کہ وہ اسی چیز کو کھو دے گا جس کو پانا چاہتا ہے۔

اس وقت ایک صاحب حضرت عمر کے ساتھ تھے جن کا نام جارود عبدی تھا، انہوں نے کہا کہ اے عورت، تو نے امیر المومنین کے ساتھ بہت زبان درازی کی۔ حضرت عمر نے کہا: انہیں بولنے دو، تم جانتے ہو یہ کون ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کی بات سات آسمانوں کے اوپر سنی گئی، عمر کو تو بدرجۂ اولیٰ ان کی بات سننا چاہیے۔

 
 

تقسیم کار

اسلام میں عورت اور مرد کے دائرۂ عمل کو الگ الگ رکھا گیا ہے۔ عورت گھر کے لیے اور مرد باہر کے لیے۔ یہ تقسیم نہ صرف اس لیے صحیح ہے کہ حیاتیاتی اور عضویاتی اعتبار سے دونوں صنفوں میں فرق ہے، بلکہ اس میں بہت سے اجتماعی فائدے بھی ہیں۔ ان میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ اس تقسیم کے ذریعہ دونوں کو ایسے قابل اعتماد ساتھی مل جاتے ہیں جو ایک دوسرے کے لیے بہترین مشیر بن سکیں۔

خاندان، نسل انسانی کی اکائی ہے اور معاشرہ اس کا مجموعہ۔ دونوں اپنی اپنی جگہ پر انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ تجربہ بتاتا ہے کہ زندگی کے ان دونوں میدانوں میں بار بار ایسے گمبھیر مسائل آتے ہیں جن میں وہ شخص بے لاگ رائے قائم نہیں کر پاتا جو خود مسئلہ کے اندر گھرا ہوا ہو۔ ایسے وقت میں ضرورت ہوتی ہے کہ آدمی کے پاس ایک ایسا مشیر ہو جو خود مسئلہ سے متعلق نہ ہو تاکہ اس کی بابت غیر متاثر ذہن کے ساتھ رائے قائم کر سکے۔

عورت اور مرد کے درمیان تقسیم عمل سے یہ فائدہ بہترین طور پر حاصل ہو جاتا ہے۔ عورت اپنے شعبہ میں مصروف ہوتی ہے اور مرد اپنے شعبہ میں۔ اس طرح دونوں ایک دوسرے کے معاملات سے براہ راست طور پر غیر متعلق ہو جاتے ہیں۔ ہر فریق اس پوزیشن میں ہوتا ہے کہ دوسرے فریق کے معاملہ میں غیر متاثر ذہن کے ساتھ سوچے اور اپنے بے لاگ مشوروں سے اس کی مدد کر سکے۔

اس بات کی وضاحت کے لیے یہاں عورت کی زندگی سے چند مثالیں نقل کی جاتی ہیں۔

١۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر جب غار حرا میں پہلی وحی اتری تو آپؐ کانپتے ہوئے اپنے گھر تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے کمبل اوڑھا دو۔ گھر والوں نے آپؐ کو کمبل اوڑھا دیا۔ کچھ دیر کے بعد جب آپؐ کی دہشت کم ہوئی تو آپ نے اپنی اہلیہ خدیجہ بنت خویلد سے وہ پورا قصہ بیان کیا جو غار حرا کی تنہائی میں آپ کے ساتھ پیش آیا تھا۔ آپ نے فرمایا: یہ واقعہ اتنا سخت تھا کہ مجھے اپنی جان کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ خدیجہؓ کے اس وقت کے الفاظ جو تاریخ نے محفوظ رکھے ہیں وہ ایک رفیقۂ حیات کے کردار کی نہایت اعلیٰ مثال ہیں۔ انہوں نے کہا:

 
 

کلا والله لا یخزیک الله ابداً. انک لتصل الرحم وتحمل الکل وتکسب المعدوم وتقری الضیف وتعین علی نوائب الحق.

''ہرگز نہیں، خدا کی قسم اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ رشتہ داروں کے حقوق ادا کرتے ہیں۔ کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، گمنام لوگوں کو کماتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کے معاملے میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔''

 
 

٢۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قریش مکہ سے وہ معاہدہ کیا جو معاہدہ حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے تو صحابہ میں سخت بے چینی پھیل گئی۔ کیونکہ یہ معاہدہ بظاہر دب کر کیا گیا تھا اور اس میں کئی باتیں صریح طور پر مخالفین کے حق میں تھیں۔ لوگوں میں اس قدر غم و غصہ تھا کہ معاہدہ کی تکمیل کے بعد جب آپ نے لوگوں کو حکم دیا کہ قربانی کے جانور جو تم اپنے ساتھ لائے ہو، یہیں ذبح کر دو اور سر منڈا لو تو ایک شخص بھی اس کے لیے نہ اٹھا۔ آپؐ نے تین بار اپنے حکم کو دہرایا پھر بھی سب لوگ خاموش رہے اور کوئی اپنی جگہ سے نہ اٹھا۔ آپؐ رنج کی حالت میں وہاں سے لوٹ کر اپنے خیمہ میں گئے جہاں آپؐ کی اہلیہ ام سلمہؓ موجود تھیں۔ انہوں نے آپ کو غمگین دیکھ کر پوچھا تو آپؐ نے فرمایا کہ آج وہ ہوا جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ میں نے مسلمانوں کو حکم دیا مگر ان میں سے کوئی بھی میرے حکم کی تعمیل کے لیے نہ اٹھا۔ ام سلمہؓ نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ، اگر آپ کی رائے یہی ہے توآپ میدان میں تشریف لے جائیں اور کسی سے کچھ کہے بغیر اپنا قربانی کا جانور ذبح کریں اور سر منڈا لیں۔ آپؐ خیمہ سے باہر نکلے اور کسی سے کچھ کہے بغیر اپنی قربانی ذبح کی اور نائی کو بلا کر سر منڈایا۔ جب صحابہ نے یہ دیکھا تو سب نے اٹھ کر اپنی اپنی قربانیاں ذبح کیں۔ اگرچہ ان کے رنج و غم کا عالم یہ تھا کہ جب وہ ایک دوسرے کا سر مونڈنے لگے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک دوسرے کو کاٹ ڈالیں گے۔

خدیجہؓ اور ام سلمہؓ کو ان نازک مواقع پر جو قیمتی بات سوجھی وہ اس لیے سوجھی کہ وہ اصل معاملہ سے الگ تھیں اور اس بنا پر اس پوزیشن میں تھیں کہ غیر متاثر ذہن کے تحت اس کے بارے میں رائے قائم کر سکیں۔ اگر وہ خود بھی معاملہ میں براہ راست شریک ہوتیں تو اس قسم کی بے لاگ رائے قائم کرنا ان کے لیے ممکن نہ ہوتا۔

 
 

علم اور خاتون

مشہور حدیث ہے کہ 'طلب العلم فریضة علی کل مسلم' (علم کو حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے) بظاہر اس حدیث میں صرف مسلم کا لفظ ہے، مسلمہ کا لفظ نہیں ہے۔ مگر علم کا حصول مسلم خواتین پر بھی فرض ہے۔ محدثین نے صراحت کی ہے کہ اس حدیث میں ''مسلمہ'' کا لفظ بھی تبعاً شامل ہے۔ (ابن ماجہ)

رجال اور طبقات کی کتابوں میں مردوں کی طرح عورتوں کی علمی خدمات کے تذکرے بھی موجود ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ دور اول میں خواتین کے درمیان علم کا کافی رواج تھا۔ امام بخاری نے چودہ سال کی عمر میں علم کے لیے سفر کیا تو وہ اس قابل ہو چکے تھے کہ بڑے بڑے اساتذہ سے استفادہ کر سکیں۔ ان کے اندر یہ استعداد ان کی والدہ اور ان کی بہن نے پیدا کی تھی۔ امام ابن جوزی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کو ابتدائی تعلیم اپنی پھوپھی سے ملی۔ ابن ابی اصیبعہ کی بہن اور بیٹی علم طب کی ماہر تھیں اور آج کل کی زبان میں ''لیڈی ڈاکٹر'' تھیں۔ امام ابن عساکر نے فن حدیث کی تعلیم جن اساتذہ سے حاصل کی ان میں ایک سے زیادہ خواتین کے نام بھی آتے ہیں۔

دور اول میں علمی سرگرمی سب سے زیادہ احادیث اور آثار کی روایت کا نام ہوتی تھی۔ اس زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کے ساتھ صحابیات اور مردوں کے ساتھ عورتوں نے بھی کثرت سے احادیث کو محفوظ کرنے اور بیان کرنے کا کام کیا ہے۔ حضرت عائشہ نے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لیے ہوئے بہت سے علوم امت کو منتقل کیے اسی طرح اس زمانہ میں بہت سی خواتین ہیں جنہوں نے اپنے والدین اور اپنے رشتہ داروں سے روایات بیان کی ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا یا آپ کے اصحاب سے علم دین کی کوئی بات پائی تھی۔ ان خواتین نے اپنے رشتہ کے اہل علم سے اسلامی تعلیمات کو سیکھا اور ان کو دوسروں تک پہنچایا۔

 
 

اسلامی حوصلہ

خنساء (٢٤ھ) اسلامی دور کی شاعرہ ہے۔ اس خاتون کا اصل نام تُماضِر بنت عمرو بن الثرید سُلمیہّ ہے۔ خنساء اس کا لقب تھا۔ بعد کو وہ اسی سے مشہور ہوگئی۔

وہ ایک بڑے خاندان میں پیدا ہوئی۔ اس کا باپ مضر کے قبیلہ بنو سلیم کا سردار تھا۔ اس کے دو بھائی جاہلی جنگ میں مارے گئے۔ اس کا اسے بہت صدمہ ہوا۔ اپنے بھائیوں کے قتل سے پہلے وہ دو یا تین اشعار سے زیادہ نہ کہتی تھی۔ مگر جب وہ مارے گئے تو اس کی آنکھوں سے آنسو اور دل سے اشعار امنڈنے لگے۔ اس نے دونوں بھائیوں خصوصاً صخر کے لیے انتہائی درد ناک مرثیے لکھے۔ وہ برابر مرثیہ کہتی رہی یہاں تک کہ اس کی دونوں آنکھیں جاتی رہیں۔

فتح مکہ کے بعد اپنے قبیلہ کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اسلام قبول کر لیا۔ کہا جاتا ہے کہ آپؐ کو اس نے اپنے کچھ اشعار سنائے تو آپ بہت متاثر ہوئے اور فرمایا: اور سناؤ ، چنانچہ اس نے مزید اشعار آپ کو سنائے۔

مگر جوانی کی عمر میں جو عورت اپنے بھائی کی موت کو برداشت نہ کر سکی تھی۔ اسلام نے اس کے اندر وہ طاقت پیدا کی کہ بڑھاپے کی عمر میں اس نے خود اپنے لڑکوں کو خدا کی راہ میں نثار کر دیا۔ اس کے چار جوان بیٹے تھے۔ چاروں کو اس نے جنگ قادسیہ میں جانے کے لیے آمادہ کیا۔ چنانچہ چاروں گئے اور چاروں لڑ کر شہید ہوگئے۔ جب اس کو خبر ملی کہ اس کے چاروں بیٹے ختم ہو گئے تو اس نے رونے یا مرثیہ کہنے کے بجائے نہایت صبر و سکون کے ساتھ اس خبر کو سنا اور پھر بولی: خدا کا شکر ہے جس نے مجھے ان کی شہادت سے عزت بخشی، میں امید رتی ہوں کہ وہ مجھے ان سے ملا دے گا۔

 
 

جنت کے لیے صبر

عمار، یاسر اور سمیہ کے لڑکے تھے جن کو مکہ میں اسلام دشمنوں نے سخت ترین تکلیفیں پہنچائیں یہاں تک کہ دونوں شہید ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ مکہ کے ابتدائی دور میں ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم آل یاسر کی طرف سے ایسے وقت میں گزرے جب کہ ان پر تشدد کیا جا رہا تھا۔ یاسر کے منہ سے صرف اتنا نکلا:

یا رسول اللہ بس یہ ہے دنیا

روایات میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آل یاسر صبر کرو، تم سے جنت کا وعدہ ہو چکا ہے۔ یاسر اور ان کی بیوی اسلام میں سب سے پہلے مرتبۂ شہادت پر فائز ہوئے۔ ماں باپ کا روح فرسا انجام دیکھنے کے باوجود عمار کے عزم میں کوئی فرق نہ آیا۔ وہ مزید یقین کے ساتھ اسلام پر جم گئے۔ راویان آثار و سیر کا بیان ہے کہ عمار بن یاسر پہلے مکی مسلمان ہیں جنہوں نے اپنے گھر میں مسجد بنائی۔ اسباب نزول کی روایات کے مطابق ذیل کی آیت انہیں کے بارے میں اتری تھی:

 
 

''بھلا جو شخص اپنی راتوں کو سجدہ و قیام کی حالت میں گزار رہا ہو، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کا امیدوار ہو (وہ اور غافل لوگ یکساں ہیں؟) کہو کیا علم والے اور بے علم والے برابر ہو سکتے ہیں؟ وہی لوگ نصیحت پکڑتے ہیں جو عقل والے ہیں۔'' (زمر)

 
 

میدان عمل

اسماء بنت ابو بکر ہجرت سے ٢٧ سال پہلے پیدا ہوئیں۔ مکہ میں جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو مسلمانوں کی تعداد سترہ تھی۔ حضرت ابوبکر نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ ہجرت کی تو ان کے پاس تقریباً چھ ہزار درہم تھے، وہ سب ساتھ لے گئے تھے۔

حضرت ابو بکر کے والد ابو قحافہ جو نابینا ہوگئے تھے۔ بعد کو پوتیوں کے پاس تسلی کے لیے آئے اور کہنے لگے: میرا خیال ہے کہ ابو بکر نے اپنے جانے کا صدمہ بھی تم کو پہنچایا اور مال بھی شاید سب لے گیا۔ اسماء کہتی ہیں کہ میں نے اپنے دادا سے کہا، وہ تو ہمارے لیے بہت کچھ چھوڑ گئے ہیں۔ یہ کہہ کر میں نے چھوٹے چھوٹے پتھر جمع کیے اور اس طاق میں بھر دیے جس میں میرے والد کے درہم پڑے رہتے تھے۔ اور ان کے اوپر ایک کپڑا ڈال کر دادا کا ہاتھ اس کپڑے پر رکھ دیا۔ انہوں نے سمجھا کہ یہ درہم سے بھرا ہوا ہے۔ کہا: خیر، یہ ابو بکر نے اچھا کیا۔ اس سے تم لوگوں کے گزارہ کی صورت ہو جائے گی۔ اسماء کہتی ہیں کہ خدا کی قسم ابا نے کچھ بھی نہیں چھوڑا تھا۔ میں نے صرف دادا کی تسلی کے لیے یہ صورت اختیار کی تھی۔

حضرت اسماء کی شادی حضرت زبیرؓ سے ہوئی تھی۔ اس کے بعد جب دونوں ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو اس وقت جو حال ہوا، وہ صحیح بخاری میں ان کی زبان سے اس طرح نقل ہوا ہے:

 
 

جب میرا نکاح زبیر سے ہوا تو ان کے پاس نہ مال تھا نہ جائداد۔ نہ کوئی خادم کام کرنے والا، نہ کوئی اور چیز۔ ایک اونٹ پانی لاد کر لانے کے لیے تھا اور ایک گھوڑا۔ میں ہی اونٹ کے لیے گھاس وغیرہ لاتی تھی اور کھجور کی گٹھلیاں کوٹ کر دانہ کے طور پر کھلاتی تھی۔ میں ہی پانی بھر کر لاتی اور پانی کا ڈول پھٹ جاتا تو اس کو آپ ہی سیتی تھی۔ مجھ ہی کو گھوڑے کی ساری خدمت کرنی ہوتی تھی۔ اس کے ساتھ گھر کا سارا کام بھی انجام دینا ہوتا۔ ان سب کاموں میں گھوڑے کی خبر گیری میرے لیے زیادہ مشقت کی چیز تھی۔ روٹی البتہ مجھ کو اچھی طرح پکانا نہیں آتی تھی۔ اس لیے جب روٹی پکانا ہوتی تو میں آٹا گوندھ کر اپنے پڑوس کی انصار عورتوں کے یہاں لے جاتی۔ وہ بڑی مخلص عورتیں تھیں۔ میری روٹی بھی پکا دیتیں۔

 
 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پہنچنے پر زبیرؓ کو ایک زمین جاگیر کے طور پر دے دی جو مدینہ سے دو میل کے فاصلہ پر تھی۔ میں وہاں کام کے لیے جایا کرتی اور وہاں سے اپنے سر پر کھجور کی گٹھلیاں لاد کر لاتی۔ ایک بار میں اس طرح آ رہی تھی اور گٹھری میرے سر پر تھی۔ راستہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم مل گئے۔ وہ اونٹ پر آ رہے تھے اور انصار کی ایک جماعت ساتھ تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر اونٹ کو ٹھہرایا۔ اور اس کو بیٹھنے کا اشارہ کیا تاکہ میں اس پر بیٹھ جاؤں۔ مجھے مردوں کے ساتھ جاتے ہوئے شرم آئی اور یہ بھی خیال آیا کہ زبیرؓ کو غیرت بہت زیادہ ہے، ان کو یہ ناگوار نہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے انداز سے سمجھ گئے کہ مجھ کو اونٹ پر بیٹھتے ہوئے شرم آ رہی ہے چنانچہ آگے بڑھ گئے۔

 
 

میں گھر پر آئی اور زبیرؓ کو پورا قصہ سنایا۔ میں نے کہا کہ مجھے مردوں کے ساتھ اونٹ پر بیٹھتے ہوئے شرم آئی اور تمہاری غیرت کا بھی خیال آیا۔ زبیرؓ نے کہا، خدا کی قسم، تمہارا گٹھلیاں سر پر رکھ کر لانا میرے لیے اس سے بھی زیادہ گراں ہے۔

 
 

مدینہ کی زندگی میں عورتوں کے اس طرح کے کثرت سے واقعات ملتے ہیں۔ اس وقت عورتیں نہ صرف گھر کا، بلکہ باہر کا بھی اکثر کام کرتی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مرد زیادہ تر جہاد اور تبلیغ دین وغیرہ میں مشغول رہتے تھے۔ ان کو موقع نہیں ملتا تھا کہ گھر کی ذمہ داریوں کو ادا کریں۔ چنانچہ ان کی عورتوں نے گھر کے کاروبار کو سنبھال لیا تھا۔ حتی کہ جانوروں کی دیکھ بھال اور زراعت اور باغبانی بھی وہ کرنے لگی تھیں۔

 
 

عورت کا مقام

''جو لوگ سونا چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور ان کو خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں سخت عذاب کی خوشخبری دے دو۔'' (توبہ ٣٤) قرآن کی یہ آیت اتری تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 'تبا للذہب تبا للفضة' (برا ہو سونے کا اور برا ہو چاندی کا) یہ بات جب آپ کے اصحاب کو معلوم ہوئی تو تشویش میں پڑ گئے۔ انہوں نے آپس میں کہا: 'فای مال نتخذ' (اب ہم کون سا مال جمع کریں) حضرت عمرؓ اس وقت وہاں موجود تھے۔ انہوں نے کہا، اگر تم لوگ پسند کرو تو میں اس کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کروں۔ لوگوں نے کہا، ہاں۔ چنانچہ وہ آپؐ کے پاس گئے اور کہا کہ آپؐ کے اصحاب کہہ رہے ہیں کہ کاش ہم جانتے کہ کون سا مال بہتر ہے تو ہم اسی کو جمع کرتے؟ آپ نے فرمایا: لیتخذ احدکم لسانا ذاکراً وقلباً شاکرًا وزوجة مومنة تعین احدکم علیٰ ایمانہ' (تفسیر ابن کثیر جلد ٢ صفحہ ٣٥١) ''تم میں سے ہر ایک یہ کرے کہ یاد کرنے والی زبان اور شکر کرنے والا دل اپنائے اور ایسی بیوی اختیار کرے جو اس کے ایمان پر اس کی مدد کرے۔''

ایک اور روایت میں ایمان کے بجائے آخرت کا لفظ ہے۔

 
 

عورت ہر میدان میں

١۔ حضرت ام سلمہؓ ایک بار کسی عورت سے اپنے بال گندھوا رہی تھیں، اتنے میں مسجد سے خطبہ کی آواز آئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: 'ایہا الناس' (اے لوگو) یہ سنتے ہی فرمایا: بس جیسے ہیں ویسے ہی باندھ دو، عورت نے کہا، اتنی جلدی کیا ہے، ابھی تو آپ نے 'ایہا الناس' کہا ہے۔ انہوں نے کہا: خوب، کیا ہمارا شمار آدمیوں میں نہیں؟ یہ کہہ کر خود ہی بال باندھ کر کھڑی ہو گئیں اور قریب ہو کر خطبہ سننے لگیں۔ (طبقات ابن سعد) حضرت ام سلمہؓ کی مرویات کی تعداد ٣٧٨ ہے۔ وہ فتویٰ بھی دیا کرتی تھیں۔ ابن قیم نے لکھا ہے کہ اگر ان کے فتوے جمع کیے جائیں تو ایک رسالہ تیار ہو جائے گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں حضرت عائشہؓ سب سے زیادہ ذہین تھیں۔ ان کی مرویات کی تعداد ٢٢١٠ تک شمار کی گئی ہے۔ ان سے تقریباً ایک سو صحابہ اور تابعین نے روایت کیا ہے۔ عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، عبد اللہ بن عامر، مروق بن اجدع، عکرمہ اور علقمہ جیسے لوگ آپ کے شاگردوں میں شامل ہیں۔ حضرت عائشہؓ ایک اعلیٰ درجہ کی فقیہ تھیں۔ جب کوئی حدیث بیان کرتیں تو اس کی علت و حکمت بھی بیان کر دیتیں۔ حضرت ابو سعیدؓ اور حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے جمعہ کے غسل کے بارے میں صرف اس قدر مروی ہے کہ جمعہ کے دن غسل کرنا چاہیے۔ مگر اسی حدیث کو حضرت عائشہؓ نے بیان کیا تو یہ بھی فرمایا کہ لوگ دور دور کی آبادیوں سے نماز جمعہ کے لیے مدینہ آتے تھے۔ وہ گرد و غبار سے اٹے ہوتے اور پسینہ سے تر ہوتے، اس لیے آپ نے فرمایا کہ تم لوگ نہا لیا کرو۔

 
 

٢۔ بنی غفار کی ایک عورت کہتی ہیں کہ میں اپنے قبیلہ کی کچھ عورتوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی۔ آپؐ خیبر کے جہاد کے لیے روانہ ہو رہے تھے۔ ہم نے عرض کیا : اے خدا کے رسولؐ! ہم چاہتے ہیں کہ ہم بھی اس سفر میں آپ کے ساتھ چلیں تاکہ زخمیوں کی مرہم پٹی کریں اور جہاں تک ہو سکے مسلمانوں کی مدد کریں۔ آپؐ نے فرمایا: 'علیٰ برکة اللّٰہ' (اللہ برکت دے، چلو) انصاری خاتون ام عطیہؓ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات غزووں میں شرکت کی ہے۔ میں مجاہدین کے کجاووں کی دیکھ بھال کے لیے پیچھے رہتی، ان کے لیے کھانا پکاتی، زخمیوں کا علاج کرتی اور مصیبت زدوں کی نگرانی کرتی۔ اسماء بنت یزید بن سکن حضرت معاذ بن جبلؓ کے چچا کی بیٹی تھیں ان کی بابت حضرت مہاجرؓ بتاتے ہیں کہ انہوں نے جنگ یرموک میں خیمہ کی لکڑی سے نو رومیوں کو قتل کیا۔

 
 

٣۔ مدینہ کے یہودیوں سے جنگ کے زمانہ کا واقعہ ہے۔ عورتوں اور بچوں کو ایک قلعہ کی چھت پر جمع کر کے حسان بن ثابتؓ کو ان کی دیکھ بھال کے لیے وہاں رکھا گیا۔ صفیہ بنت عبد المطلب بھی اسی قلعہ کی چھت پر تھیں۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ ہمارے قریب سے ایک یہودی گزرا اور ہمارے قلعہ کا چکر لگانے لگا۔ اس وقت بنی قریظہ سے جنگ چھیڑ رکھی تھی۔ اس وجہ سے ہمارے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان راستہ کٹ گیا تھا اور وہاں کوئی نہیں تھا جو یہود کے مقابلے میں ہماری مدافعت کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام مسلمان دشمن کے مقابلہ پر تھے، وہ ان کو چھوڑ کر ہماری طرف نہیں آ سکتے تھے۔ اتنے میں آنے والا یہودی سامنے سے گزرا۔ میں نے کہا: اے حسان! دیکھو یہ یہودی ہمارے قلعہ کا چکر لگا رہا ہے اور میں خدا کی قسم اس سے مامون نہیں۔ کہیں وہ ہماری اس غیر محفوظ حالت کو یہودیوں سے جا کر کہہ نہ دے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب جنگ میں مشغول ہیں۔ پس اترو اور اس کو جا کر قتل کر دو۔ حسان بن ثابتؓ نے کہا: 'واللہ لقد عرفتِ ما انا بصاحب ہذا' (خدا کی قسم، تم کو معلوم ہے کہ میں اس کام کا نہیں)۔ وہ کہتی ہیں کہ جب انہوں نے مجھ کو یہ جواب دیا اور میں نے ان کے پاس مارنے کی کوئی چیز نہ دیکھی تو میں نے کمر سے کپڑا کسا اور ایک لکڑی ہاتھ میں لی۔ پھر قلعہ سے اتر کر اس کے پاس پہنچی اور اس لکڑی سے اس کو مارنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ میں نے اس کو ہلاک کر دیا۔ پھر جب میں اس سے فارغ ہو گئی تو قلعہ میں واپس آئی اور حسان بن ثابت سے کہا کہ قلعہ سے اتر کر جاؤ اور اس کا سامان لاؤ۔ میں صرف اس لیے اس کا سامان اتارنے سے رک گئی کہ وہ مرد تھا۔ حسان بن ثابت نے کہا: اے عبد المطلب کی بیٹی! مجھے اس کے سامان کی ضرورت نہیں۔ (البدایہ والنہایہ جلد ٤ صفحہ ١٠٨)

 
 

خدا کی مدد

ہجرت کے چھٹے سال حدیبیہ کے مقام پر جو دس سالہ معاہدہ کیا گیا، اس کی دفعہ یہ تھی:

 
 

''قریش کا جو شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر بھاگ کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائے گا، اس کو آپ واپس کر دیں گے اور آپؐ کے ساتھیوں میں سے جو شخص قریش کے پاس چلا جائے گا اس کو وہ واپس نہ کریں گے۔'' اس معاہدے کی تکمیل کے وقت قریش کی نمائندگی سہیل بن عمرو کر رہے تھے، معاہدہ ابھی لکھا ہی جا رہا تھا کہ سہیل بن عمرو کے لڑکے ابو جندل آگئے۔ وہ مسلمان ہوگئے تھے مگر مکہ والوں نے ان کو قید کر رکھا تھا۔ مکہ سے حدیبیہ (موجودہ شمیسی) تک ١٣ میل کا فاصلہ طے کر کے وہ اس طرح آپ کے کیمپ میں پہنچے کہ اب بھی ان کے پیروں میں بیڑیاں تھی اور جسم پر مار پیٹ کے نشانات تھے۔ انہوں نے آپ سے فریاد کی کہ مجھ کو اس قید سے نجات دلائی جائے۔ صحابہ کے لیے بھی اپنے مومن بھائی کی یہ حالت دیکھ کر ضبط کرنا مشکل ہوگیا۔ مگر سہیل بن عمرو نے کہا کہ معاہدہ کی تحریر چاہے مکمل نہ ہوئی ہو، شرائط تو ہمارے اور آپ کے درمیان طے ہو چکی ہیں۔ اس لیے ابو جندل کو ہمارے حوالہ کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دلیل کو تسلیم کرتے ہوئے ابو جندل کو ان کے حوالہ کر دیا۔ اور وہ روتے ہوئے مکہ واپس گئے۔ اسی طرح ابو بصیر اور دوسرے مسلمان جو قریش کی قید سے بھاگ کر مدینہ آئے، ان کو حسب معاہدہ قریش کو واپس کیا جاتا رہا۔ مگر اس کے برعکس مسلمان عورتوں کے معاملہ میں اس اصول کی پابندی نہیں کی گئی۔ قرآن میں آیت اتری:

''اے ایمان والو! جب مومن عورتیں ہجرت کرکے تمہارے پاس آئیں تو ان کی جانچ کر لو، پھر جب تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ مومن ہیں تو ان کو کفار کی طرف واپس نہ کرو۔'' (الممتحنہ ١٠) اس سلسلہ میں، مثال کے طور پر یہ واقعہ آتا ہے کہ ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط مکہ سے نکل کر مدینہ پہنچیں، مکہ والوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے معاہدہ کا حوالہ دے کر ان کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ ام کلثوم کے دو بھائی ولید بن عقبہ اور عمارہ بن عقبہ انہیں واپس لے جانے کے لیے مدینہ آئے۔ اس کے باوجود ان کو واپس نہیں کیا گیا۔

بظاہر یہ معاہدہ کی خلاف ورزی تھی۔ اور قریش کے لیے زبردست موقع تھا کہ وہ آپؐ کی بدعہدی کا شور مچا کر آپؐ کو بدنام کریں۔ مگر قریش آپ کے ساتھ انتہائی دشمنی کے باوجود بالکل خاموش ہو گئے انہوں نے اس کے خلاف احتجاج تک نہ کیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ سیرت اور تفسیر کی عام کتابوں میں اس کا کوئی جواب نہیں ملتا۔ قاضی ابو بکر ابن عربی نے لکھا ہے کہ قریش اس لیے خاموش ہو گئے کہ اللہ تعالیٰ نے بطور معجزہ اس معاملہ میں ان کی زبان بند کر دی تھی۔ بلاشبہ یہ اللہ تعالیٰ کی مدد تھی۔ مگر ان معنوں میں نہیں جن معنوں میں لفظ ''معجزہ'' عام طور پر بولا جاتا ہے۔

معاہدہ کے الفاظ پر غور کرکے اس کی حقیقت سمجھی جا سکتی ہے۔ دوسری اکثر روایات کی طرح معاہدۂ حدیبیہ کی شرائط بھی اکثر راویوں نے اپنے اپنے الفاظ میں بیان کی ہیں۔ مثال کے طور پر زیر بحث شرط کے متعلق مختلف روایتوں کے الفاظ ملاحظہ ہوں:

 
 

من جاء منکم لم نردہ علیہکم ومن جاء کم منا رددتموہ علینا.

من اتی رسول الله من اصحابہ بغیر اذن ولیہ ردہ علیہ.

من اتی محمدًا من قریش بغیر اذن ولیہ ردہ علیہم.

علیٰ ان لا یاتیک منا رجل وان کان علیٰ دینک الا رددتہ الینا.

آخری روایت بخاری (کتاب الشروط، باب الشروط فی الجہاد والمصالحہ) کی ہے اور باعتبار سند قوی ہونے کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ غالباً معاہدہ کی مذکورہ شرط کے اصل الفاظ یہی تھے۔ اگر یہ مان لیا جائے تو اس فقرہ میں 'رجل' (مرد) کے لفظ نے مسلمانوں کو موقع دیا کہ وہ مکہ سے آئی ہوئی مسلم خواتین کو اس دفعہ سے مستثنیٰ قرار دے سکیں۔

معاہدہ کی یہ شرط مسلمانوں کی طرف سے نہ تھی بلکہ مکہ والوں کی طرف سے تھی۔ ان کی جانب سے سہیل بن عمرو نے معاہدہ میں دفعہ کے یہ الفاظ لکھوائے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ دفعہ کے الفاظ لکھواتے وقت سہیل کے ذہن میں ''کوئی شخص'' کا مفہوم ہو جس میں عورت اور مرد دونوں شامل ہوتے ہیں، مگر اپنے اس ذہنی مفہوم کو لفظ کی شکل دیتے ہوئے اس کی زبان سے جو لفظ نکلا وہ ''رجل'' تھا جو عربی زبان میں صرف مرد کے لیے بولا جاتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ام کلثوم بنت عقبہ کے مدینہ پہنچنے کے بعد جب ان کے بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی بہن کی واپسی کا مطالبہ کیا تو امام زہری کی روایت کے مطابق، آپ نے ان کو واپس دینے سے انکار کر دیا اور فرمایا: 'کان الشرط فی الرجال دون النسائ'(شرط مردوں کے بارہ میں تھی نہ کہ عورتوں کے بارہ میں) احکام القرآن لابن عربی، تفسیر رازی۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ سے پہلے تک خود قریش غالباً اس غلط فہمی میں تھے کہ معاہدہ کی یہ دفعہ ہر طرح کے مہاجرین کے بارے میں ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ مگر جب آپؐ نے توجہ دلائی کہ معاہدہ میں' رجل' (مرد) کا لفظ لکھا ہوا ہے تو انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک لفظ کے ذریعہ مسلم خواتین کو ذلت کی واپسی سے بچا لیا۔


 

جشن جمہوریت اور فتوے کی سیاست

ملک کا ایک بڑا حصہ انتخابات کے دور سے گزرنے کی تیاری کررہا ہے ۔مذہبی اور غیر مذہبی تمام قسم کے لوگ انتخابی سیاست کے میدان میں کود پڑے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں محمد آصف ریاض کی تحریر

جشن جمہوریت اور فتوے کی سیاست

ASIF RIYAZ | Issue Dated: نومبر 19, 2011, Noida



ہماراملک تہواروں کا ملک ہے ۔ابھی دس روز پہلے کی بات ہے کہ پورا ملک درگا پوجا کے جشن سے گزر رہا تھا کہ سرپر دیوالی آگئی اورملک کا چپہ چپہ روشنی میں نہا گیا۔ابھی اس کا خمار اترا بھی نہیں تھا کہ سر پرعید کا خمار سوارہوگیااوراب لوگوںکو کرسمس کا انتظار ہے ۔اور صاحبو، اس کے بعد جشن کا سلسلہ رکنے والا نہیں ہے ،ہمارے پاس اس سے بھی ایک بڑا تہوار ہے، جس کی تیاری ملک بھر میں زور و شور سے چل رہی ہے۔اس تہوار کوہم ' جمہوری تہوار ' کہتے ہیں ۔ کچھ لوگ اسے ' جمہوریت کا جشن 'بھی کہتے ہیں۔ یہ جشن بہت جلد ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں منا یا جا نا ہے ۔اس کی تیاریاں زور و شور سے چل رہی ہیں ،رتھ نکالے جا رہے ہیں۔انشن کیا جا رہا ہے ،دورے پر دورے ہو رہے ہیں ، سرکاری مراعات کا اعلان کیا جا رہا ہے، نئے نئے وعدے کئے جارہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے ہر قسم کی فیاضی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے،تاکہ سب لوگ اس تہوار کے جشن میں شریک ہوسکیں ۔اور یقیناً ایسا ہوبھی رہا ہے۔ اس تہوار کے جشن میں سبھی لوگ شامل ہیں، پڑھے لکھے بھی اور جاہل بھی ،سیکولر لوگ بھی، اور مذہبی لوگ بھی بلکہ مذہبی لوگ تودوسرے تہواروں کی طرح اس تہوار پر بھی چھاجانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بابا رام دیو ہوں،مولانا بخاری ہوں ،یا مولانا کلب صادق، سبھی اس چناوی تہوارکی تیار ی میں لگے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ بعض مذہبی شخصیات کی طرف سے سیاسی فتوے بھی جاری کئے جارہے ہیں اور ووٹر وںپر اثر انداز ہونے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ فتوو¿ں کی سیاست کوئی نئی چیز نہیںہے ،ماضی میں بھی سیاسی فتوے جاری کئے جاتے رہے ہیں ،مثلاً 2004میں مولانا وحید الدین خان اور آل انڈیا امام آرگنائزیشن کے صدر جمیل الیاسی نے 'باجپئی حمایت کمیٹی ' کی طرف سے بی جے پی کے لئے سیاسی فتوے جاری کئے تھے ۔ تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس قسم کے سیاسی فتوو¿ں کا رائے دہندگان پر بھی کوئی اثر پڑتا ہے؟ یہی سوال میں نے پندار اردو ڈیلی کے ورکننگ ایڈیٹر اور مسلم امور کے ماہر ڈاکٹر ریحان غنی سے پوچھا کہ چناﺅ میں فتویٰ فیکٹر کتنا کام آتا ہے؟
انھوں نے بتا یا کہ" مجھے لگتا ہے کہ ووٹر،چاہے وہ کسی مذہب ،فرقہ ،یا برادری سے تعلق رکھتے ہوں،باشعور ہوچکے ہیں۔اب وہ وقت گیاجب سیاسی فتوو¿ںکے ذریعہ بھولے بھالے رائے دہندگان کا سیاسی استحصال کیا جا تا تھا۔اب مسلم سماج سیا سی فتوو¿ں کے اثر سے باہر آچکا ہے۔ اب اس پر اس قسم کے سیاسی فتوو¿ں کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ بہار کے انتخاب میں کچھ نام نہاد علما نے سیاسی فتویٰ کے سہارے لالو یادو کو بچانے کی کوشش کی تھی لیکن عوام نے ان کے فتوو¿ں کو مسترد کردیا۔ لوگ تعلیم یافتہ ہوتے جارہے ہیں اس لئے وہ خود اچھے برے کی تمیز کرنے لگے ہیں۔ اسی طرح رام ولاس پاسوان نے بھی کئی سیاسی علما کا سہا را لیاتھا لیکن انھیں بھی مایوسی ہاتھ لگی ۔ اس لئے میرا اپنا خیال یہ ہے کہ کسی مذہبی ادارے یا کسی مذہبی لیڈر کی رائے سے یا ان کے خیالات سے یا ان کے فتوو¿ں سے رائے دہندگان متاثر نہیں ہوتے۔ووٹر اب خود فیصلہ کرنے کی پوزیش میں ہوگئے ہیں اور وہ بہت سوچ سمجھ کر اپنے حق رائے دہی اور اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں اس لئے جو پارٹی یا حکومت یہ سمجھتی ہے کہ بڑے ملی اور مذہبی اداروں سے فتویٰ جا ری کرنے سے فائدہ ہو گا تو یہ ان کی غلط فہمی ہے ۔جہاں تک نوجوانوں کا سوال ہے توہمارے ملک کے نوجوان اور بھی بیدا ر اور چوکس ہوچکے ہیں۔انھیں بے وقوف بنانا اور بھی مشکل ہے ۔اگرکوئی پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ نو جوان مذہبی لیڈران کے زیر اثر ہیں تو یہ ان کی بڑی غلط فہمی ہے۔ عام ووٹروں کی طرح نوجوان بھی بدعنوانی سے مکت سماج چاہتے ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ انھیں پر امن ماحول میں پڑھنے لکھنے اور اپنی زندگی سنوانے کا موقع ملے۔ انھیں روزگار ملے اور دیش کا ماحول آتنک سے پاک ہو۔ اب سیاسی منظر نامہ بدل چکا ہے اس لئے کسی بھی جماعت یاپارٹی یا حکومت کو اگر دوبارہ حکومت میں آنا ہے تو اسے کام کرنا ہوگا ۔کوئی پارٹی اگر یہ چاہے کہ وہ کسی فتویٰ کا سہا را لے کر حکومت میں آسکتی ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔وہ وقت گزر گیا جب سیاسی فتوو¿ں کے ذریعہ سادے ووٹروں کو بے وقوف بنایا جا تا تھا اور مذہب کے نام پر ان کا سیاسی استحصال ہوتا تھا"۔
لیکن جامعہ ملیہ اسلامیہ میںڈیپارٹمنٹ آف اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پرو فیسر مفتی محمد مشتاق تجاروی کا ماننا ہے کہ بلاشبہ حالات بدل گئے ہیں لیکن پھر بھی سیاسی فتووں کا اثر باقی ہے۔وہ کہتے ہیں "فتویٰ بنیادی طور پر دینی معاملات میں لیا جا تا ہے اور جس سے فتویٰ لیتے ہیں وہ کوئی محترم اور قابل احترام شخصیت ہوتی ہے۔ اگر کوئی ایسی شخصیت کسی دنیوی معاملات میں بھی رہنمائی کرے، تو جو لوگ دین کے معاملہ میں ان پر بھروسہ کرتے ہیں دنیوی اور سیاسی معاملات میں بھی ان پر بھروسہ کریں گے ،اس لئے میرا خیال یہ ہے کہ سیاسی معاملات میں بھی فتوے کا اثر ہوتا ہے ۔چنانچہ یہ کہنا کہ سیاسی فتوو¿ں کا کوئی اثر نہیںپڑتا غلط ہے "
 نئی نسل کے اسلامی اسکالر ڈاکٹر افضل مصباحی کہتے ہیں کہ" سیاسی فتووں کا کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ اس سے فتویٰ دینے والے کی اہمیت گھٹ جاتی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ بھی سیاسی فتوے جاری کرتے ہیں ان کے بارے میں یہی خیال کیا جا تا ہے کہ وہ کسی سیاسی پارٹی سے وابستہ ہیں اور اپنے ذاتی مفاد کو نظر میں رکھتے ہوئے فتوے جاری کر رہے ہیں"۔
دہلی میں واقع ڈاکٹر ذاکر حسین سینئر سیکنڈری اسکول کے پرنسپل ڈاکٹر معروف خان سیاسی فتوو¿ں کے بارے میں اپنی الگ ہی رائے رکھتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ فتویٰ جاری کرنے کے لئے ایک خاص قسم کی لیاقت کی ضرورت ہوتی ہے ۔اس خاص قسم کی لیاقت حاصل کرنے والوں کو مفتی کہا جا تا ہے اور کوئی مفتی ہی فتویٰ جاری کرسکتا ہے۔مفتی کے علاوہ کوئی اگر فتویٰ جاری کرے تو اس کے فتویٰ کو رد کردیا جائے گا۔اس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ فتویٰ ہمیشہ تحر یری شکل میں ہوتا ہے۔ جس کا غذ میں فتویٰ مانگا جا تا ہے ،مفتی حضرات اسی کاغذ پر اس کا جواب لکھ دیتے ہیں۔وہ الگ سے کاغذ پر نہیں لکھتے۔ یہی اصل معنوں میں فتویٰ ہے۔ لیکن میڈیا کا حال یہ ہے کہ وہ کسی بھی مذہبی شخص کے بیان کو فتویٰ کہہ کر پیش کردیتا ہے"۔  
 علی گڑ مسلم یونیور سٹی کے شعبہ دینیات کے ریسرچ اسکالر ندیم اشرف اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "سب سے بنیادی چیز یہ ہے کہ مسلمانوں میں کئی طبقے ہیں ،ایک طبقہ وہ ہے جو علما کی بات بہت زیادہ مانتا ہے اور دوسرا طبقہ وہ ہے جو ان کی بات تو مانتا ہے لیکن ساتھ ہی اپنی عقل بھی استعمال کرتا ہے ۔وہ پورے حالات کا تجزیہ کر کے اگر یہ پاتا ہے کہ علما کی بات ماننے کے لائق ہے تو وہ مانتا ہے نہیں تو وہ اسے رد کر دیتا ہے"۔ مسٹر ندیم مزید کہتے ہیں کہ "اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ بہر حال مسلم سماج پر علما کی باتوںکا اثر پڑتا ہے۔چنانچہ علما کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حالات کو نظر میں رکھ کر اور ملک کے مفاد کو نگا میں رکھ کر کوئی مشورہ دیں"۔تو صاحبو، جمہوریت کا جشن آنے ہی والا ہے ، دل تھام کر بیٹھئے اور سیاسی فتوو¿ں کا انتظار کیجئے کہ چاہے ان فتووں کا کسی پر اثر پڑے یا نہ پڑے،بہر حال فتوے تو جاری کئے ہی جائیں گے!

http://www.thesundayindian.com/ur/story/democracy-gala-and-politics-of-fatwa/7/1022/