Monday 19 December 2011

جشن جمہوریت اور فتوے کی سیاست

ملک کا ایک بڑا حصہ انتخابات کے دور سے گزرنے کی تیاری کررہا ہے ۔مذہبی اور غیر مذہبی تمام قسم کے لوگ انتخابی سیاست کے میدان میں کود پڑے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں محمد آصف ریاض کی تحریر

جشن جمہوریت اور فتوے کی سیاست

ASIF RIYAZ | Issue Dated: نومبر 19, 2011, Noida



ہماراملک تہواروں کا ملک ہے ۔ابھی دس روز پہلے کی بات ہے کہ پورا ملک درگا پوجا کے جشن سے گزر رہا تھا کہ سرپر دیوالی آگئی اورملک کا چپہ چپہ روشنی میں نہا گیا۔ابھی اس کا خمار اترا بھی نہیں تھا کہ سر پرعید کا خمار سوارہوگیااوراب لوگوںکو کرسمس کا انتظار ہے ۔اور صاحبو، اس کے بعد جشن کا سلسلہ رکنے والا نہیں ہے ،ہمارے پاس اس سے بھی ایک بڑا تہوار ہے، جس کی تیاری ملک بھر میں زور و شور سے چل رہی ہے۔اس تہوار کوہم ' جمہوری تہوار ' کہتے ہیں ۔ کچھ لوگ اسے ' جمہوریت کا جشن 'بھی کہتے ہیں۔ یہ جشن بہت جلد ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں منا یا جا نا ہے ۔اس کی تیاریاں زور و شور سے چل رہی ہیں ،رتھ نکالے جا رہے ہیں۔انشن کیا جا رہا ہے ،دورے پر دورے ہو رہے ہیں ، سرکاری مراعات کا اعلان کیا جا رہا ہے، نئے نئے وعدے کئے جارہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے ہر قسم کی فیاضی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے،تاکہ سب لوگ اس تہوار کے جشن میں شریک ہوسکیں ۔اور یقیناً ایسا ہوبھی رہا ہے۔ اس تہوار کے جشن میں سبھی لوگ شامل ہیں، پڑھے لکھے بھی اور جاہل بھی ،سیکولر لوگ بھی، اور مذہبی لوگ بھی بلکہ مذہبی لوگ تودوسرے تہواروں کی طرح اس تہوار پر بھی چھاجانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بابا رام دیو ہوں،مولانا بخاری ہوں ،یا مولانا کلب صادق، سبھی اس چناوی تہوارکی تیار ی میں لگے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ بعض مذہبی شخصیات کی طرف سے سیاسی فتوے بھی جاری کئے جارہے ہیں اور ووٹر وںپر اثر انداز ہونے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ فتوو¿ں کی سیاست کوئی نئی چیز نہیںہے ،ماضی میں بھی سیاسی فتوے جاری کئے جاتے رہے ہیں ،مثلاً 2004میں مولانا وحید الدین خان اور آل انڈیا امام آرگنائزیشن کے صدر جمیل الیاسی نے 'باجپئی حمایت کمیٹی ' کی طرف سے بی جے پی کے لئے سیاسی فتوے جاری کئے تھے ۔ تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس قسم کے سیاسی فتوو¿ں کا رائے دہندگان پر بھی کوئی اثر پڑتا ہے؟ یہی سوال میں نے پندار اردو ڈیلی کے ورکننگ ایڈیٹر اور مسلم امور کے ماہر ڈاکٹر ریحان غنی سے پوچھا کہ چناﺅ میں فتویٰ فیکٹر کتنا کام آتا ہے؟
انھوں نے بتا یا کہ" مجھے لگتا ہے کہ ووٹر،چاہے وہ کسی مذہب ،فرقہ ،یا برادری سے تعلق رکھتے ہوں،باشعور ہوچکے ہیں۔اب وہ وقت گیاجب سیاسی فتوو¿ںکے ذریعہ بھولے بھالے رائے دہندگان کا سیاسی استحصال کیا جا تا تھا۔اب مسلم سماج سیا سی فتوو¿ں کے اثر سے باہر آچکا ہے۔ اب اس پر اس قسم کے سیاسی فتوو¿ں کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ بہار کے انتخاب میں کچھ نام نہاد علما نے سیاسی فتویٰ کے سہارے لالو یادو کو بچانے کی کوشش کی تھی لیکن عوام نے ان کے فتوو¿ں کو مسترد کردیا۔ لوگ تعلیم یافتہ ہوتے جارہے ہیں اس لئے وہ خود اچھے برے کی تمیز کرنے لگے ہیں۔ اسی طرح رام ولاس پاسوان نے بھی کئی سیاسی علما کا سہا را لیاتھا لیکن انھیں بھی مایوسی ہاتھ لگی ۔ اس لئے میرا اپنا خیال یہ ہے کہ کسی مذہبی ادارے یا کسی مذہبی لیڈر کی رائے سے یا ان کے خیالات سے یا ان کے فتوو¿ں سے رائے دہندگان متاثر نہیں ہوتے۔ووٹر اب خود فیصلہ کرنے کی پوزیش میں ہوگئے ہیں اور وہ بہت سوچ سمجھ کر اپنے حق رائے دہی اور اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں اس لئے جو پارٹی یا حکومت یہ سمجھتی ہے کہ بڑے ملی اور مذہبی اداروں سے فتویٰ جا ری کرنے سے فائدہ ہو گا تو یہ ان کی غلط فہمی ہے ۔جہاں تک نوجوانوں کا سوال ہے توہمارے ملک کے نوجوان اور بھی بیدا ر اور چوکس ہوچکے ہیں۔انھیں بے وقوف بنانا اور بھی مشکل ہے ۔اگرکوئی پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ نو جوان مذہبی لیڈران کے زیر اثر ہیں تو یہ ان کی بڑی غلط فہمی ہے۔ عام ووٹروں کی طرح نوجوان بھی بدعنوانی سے مکت سماج چاہتے ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ انھیں پر امن ماحول میں پڑھنے لکھنے اور اپنی زندگی سنوانے کا موقع ملے۔ انھیں روزگار ملے اور دیش کا ماحول آتنک سے پاک ہو۔ اب سیاسی منظر نامہ بدل چکا ہے اس لئے کسی بھی جماعت یاپارٹی یا حکومت کو اگر دوبارہ حکومت میں آنا ہے تو اسے کام کرنا ہوگا ۔کوئی پارٹی اگر یہ چاہے کہ وہ کسی فتویٰ کا سہا را لے کر حکومت میں آسکتی ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔وہ وقت گزر گیا جب سیاسی فتوو¿ں کے ذریعہ سادے ووٹروں کو بے وقوف بنایا جا تا تھا اور مذہب کے نام پر ان کا سیاسی استحصال ہوتا تھا"۔
لیکن جامعہ ملیہ اسلامیہ میںڈیپارٹمنٹ آف اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پرو فیسر مفتی محمد مشتاق تجاروی کا ماننا ہے کہ بلاشبہ حالات بدل گئے ہیں لیکن پھر بھی سیاسی فتووں کا اثر باقی ہے۔وہ کہتے ہیں "فتویٰ بنیادی طور پر دینی معاملات میں لیا جا تا ہے اور جس سے فتویٰ لیتے ہیں وہ کوئی محترم اور قابل احترام شخصیت ہوتی ہے۔ اگر کوئی ایسی شخصیت کسی دنیوی معاملات میں بھی رہنمائی کرے، تو جو لوگ دین کے معاملہ میں ان پر بھروسہ کرتے ہیں دنیوی اور سیاسی معاملات میں بھی ان پر بھروسہ کریں گے ،اس لئے میرا خیال یہ ہے کہ سیاسی معاملات میں بھی فتوے کا اثر ہوتا ہے ۔چنانچہ یہ کہنا کہ سیاسی فتوو¿ں کا کوئی اثر نہیںپڑتا غلط ہے "
 نئی نسل کے اسلامی اسکالر ڈاکٹر افضل مصباحی کہتے ہیں کہ" سیاسی فتووں کا کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ اس سے فتویٰ دینے والے کی اہمیت گھٹ جاتی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ بھی سیاسی فتوے جاری کرتے ہیں ان کے بارے میں یہی خیال کیا جا تا ہے کہ وہ کسی سیاسی پارٹی سے وابستہ ہیں اور اپنے ذاتی مفاد کو نظر میں رکھتے ہوئے فتوے جاری کر رہے ہیں"۔
دہلی میں واقع ڈاکٹر ذاکر حسین سینئر سیکنڈری اسکول کے پرنسپل ڈاکٹر معروف خان سیاسی فتوو¿ں کے بارے میں اپنی الگ ہی رائے رکھتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ فتویٰ جاری کرنے کے لئے ایک خاص قسم کی لیاقت کی ضرورت ہوتی ہے ۔اس خاص قسم کی لیاقت حاصل کرنے والوں کو مفتی کہا جا تا ہے اور کوئی مفتی ہی فتویٰ جاری کرسکتا ہے۔مفتی کے علاوہ کوئی اگر فتویٰ جاری کرے تو اس کے فتویٰ کو رد کردیا جائے گا۔اس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ فتویٰ ہمیشہ تحر یری شکل میں ہوتا ہے۔ جس کا غذ میں فتویٰ مانگا جا تا ہے ،مفتی حضرات اسی کاغذ پر اس کا جواب لکھ دیتے ہیں۔وہ الگ سے کاغذ پر نہیں لکھتے۔ یہی اصل معنوں میں فتویٰ ہے۔ لیکن میڈیا کا حال یہ ہے کہ وہ کسی بھی مذہبی شخص کے بیان کو فتویٰ کہہ کر پیش کردیتا ہے"۔  
 علی گڑ مسلم یونیور سٹی کے شعبہ دینیات کے ریسرچ اسکالر ندیم اشرف اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "سب سے بنیادی چیز یہ ہے کہ مسلمانوں میں کئی طبقے ہیں ،ایک طبقہ وہ ہے جو علما کی بات بہت زیادہ مانتا ہے اور دوسرا طبقہ وہ ہے جو ان کی بات تو مانتا ہے لیکن ساتھ ہی اپنی عقل بھی استعمال کرتا ہے ۔وہ پورے حالات کا تجزیہ کر کے اگر یہ پاتا ہے کہ علما کی بات ماننے کے لائق ہے تو وہ مانتا ہے نہیں تو وہ اسے رد کر دیتا ہے"۔ مسٹر ندیم مزید کہتے ہیں کہ "اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ بہر حال مسلم سماج پر علما کی باتوںکا اثر پڑتا ہے۔چنانچہ علما کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حالات کو نظر میں رکھ کر اور ملک کے مفاد کو نگا میں رکھ کر کوئی مشورہ دیں"۔تو صاحبو، جمہوریت کا جشن آنے ہی والا ہے ، دل تھام کر بیٹھئے اور سیاسی فتوو¿ں کا انتظار کیجئے کہ چاہے ان فتووں کا کسی پر اثر پڑے یا نہ پڑے،بہر حال فتوے تو جاری کئے ہی جائیں گے!

http://www.thesundayindian.com/ur/story/democracy-gala-and-politics-of-fatwa/7/1022/

No comments:

Post a Comment