Sunday 18 December 2011

وحید الدین اور ابراہیم علیہ السلام کی قربانی

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کو سورہ صافات آیت 102 میں مذکور اپنے اکلوتے بیٹے اسماعیل کو ذبح کرنے کا جو خواب دکھا یا گیا تھا وہ تمثیلی تھا ، اس کی تعمیل مطلوب نہیں تھی ، لیکن ابراہیم علیہ السلام اس کی تعمیل پرآمادہ ہوگئے:

یہ کہنے والے کوئی اورنہیں بلکہ عصرحاضرکے مشہورگمراہ وحیدالدین خان نے کہی ہے ، ملاحظہ ہو انہیں کے الفاظ میں ان کی یہ پرضلات تحقیق:

''ذبح اسماعیل کے واقعہ کی حقیقیت بھی یہی ہے ، حضرت ابراہیم کو جوخواب (الصافات102 ) میں‌ دکھایاگیا وہ ایک تمثیلی خواب تھا اگرچہ ابراہم علیہ السلام اپنی انتہائی وفاداری کی بناپراس کی حقیقی تعمیل کے لئے آمادہ ہوگئے ۔
قدیم مکہ میں نہ پانی تھا نہ سبزہ تھا اورزندگی کا کوئی سامان ایسی حالت میں‌ اپنی اولاد کو وہاں بسانا یقینا ان کو ذبح کرنے کے ہم معنی تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کو جیتے جی موت کے حوالہ کردیا جائے شرک کے تسلسل سے منقطع کرکے نئی نسل پیداکرنے کا منصوبہ کسی ایسے مقام پرہی زیرعمل لایا جاسکتاتھا جہاں اسباب حیات نہ ہوں‌ اوراسی بناپروہ انسانی آبادی سے خالی ہو ، حضرت ابراہیم کے خواب کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنی اولاد کو معاشی اورسماجی حیثیت سے ذبح کرکے مذکورہ نسل تیار کرنے میں خدائی منصوبے کا ساتھ دیں‌'' (عظمت قران :ص 92 از وحیدالدین خان). 


میرے ناقص علم کے مطابق خان صاحب پوری دنیا میں پہلے شخص ہیں جنہوں نے ابراہم علیہ السلام کے خواب سے متعلق اس نئے فتنہ اورگمراہی کی بنیاد ڈالی ہے ، خان صاحب کی اس گمراہی کا تعاقب کرتے ہوئے ہمارے دوست اورہم مدرسہ ساتھی شیخ عطاء اللہ السنابلی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:

اولا:
امت کا اس بات پراجماع رہا ہے کہ یہ خواب حقیقی تھا تمثیلی نہیں ،نیز حقیقی تعمیل کا متقاضی بھی تھا اگرکوئی اس کا انکار کرتا ہے تو گویا کہ وہ اجماع امت کا انکار کررہاہے۔

ثانیا:
اگراس خواب کی حقیقی تعمیل مطلوب نہ ہوتی تو اس سے '' انتہائی وفاداری'' جو ابراہیم علیہ السلام کا طرہ امتیاز تھی اس کا مظاہرہ کیسے ہوتا ؟؟؟

ثالثا:
اگریہ کہا جارہا ہے کہ یہ خواب تمثیلی تھا اورابراہیم علیہ السلام حقیقی تعمیل پرآمادہ ہوگئے تھے تو ان پر خواب کی حقیقت اورمطلب نہ سمجھنے کا الزام عائد ہوجاتاہے اسی طرح یہ بھی لازم آتاہے کہ وہ وحی الہی کا مفہوم نہیں اخذ کرپاتے تھے کیونکہ حالت نیند میں خواب انبیاء وحی ہوتاہے ۔

رابعا:
اگرذبح سے مراد اسماعیل علیہ السلام کو معاشی اورسماجی حیثیت سے ذبح کرنی ہوتی اوربے آب وگیاہ سرزمین مکہ میں آباد کرنا مقصود ہوتا تو یہ خواب اسماعیل علیہ السلام کو مکہ میں آباد کرنے سے پہلے دکھانا ضروری تھا ، جبکہ قران و حدیث تارخ اورمفسرین کے شواہد سے واضح ہے کہ ابراہم علیہ السلام کو یہ خواب اسماعیل علیہ السلام کو مکہ میں آباد کرنے کے کئی سال بعد دکھا یا گیا تھا ۔


ان حقائق سے واضح ہوجاتا ہے کہ خواب تمثیلی نہ تھا بلکہ حقیقی تعمیل کا متقاضی تھا۔
(عیدقرباں کے احکام ومسائل :ص 85، 86 از عطاء اللہ عبدالحکیم السنابلی حفظہ اللہ )

خان صاحب کے مذکوہ اقتباس سے ان کی بابت کئی حقائق منکشف ہوئے ۔

اول :
خان صاحب پکے عقل پرست ہیں‌ ، یعنی وہی بات تسلیم کریں‌ گے جو ان کے عقل کے موافق ہو ورنہ اگران کے عقل کے خلاف کوئی بات ہو تو وہ چاہے قران ، حدیث‌ ، تفسیر ،تاریخ ، کہیں‌ کی بھی ہو خان صاحب ک نظر میں اس کی کوئی وقعت نہیں ، یہ چیز ایک طرح سے فرعونیت اور دعوائے ربوبیت ہے۔

دوم:
خان صاحب جس طرح اپنی عقل کے خلاف احادیث پاتے ہیں تو تمثیل وغیرہ کے نام پر اس کا مفہوم بدل دیتے ہیں جیساکہ انہوں‌ نے جملہ علامات قیامت سے متعلق کیا ہے ، ٹھیک اسی طرح خان صاحب قران کی بھی جو بات اپنی عقل کے خلاف پاتے ہیں اس کا مفہوم بدل دیتے ہیں ۔

سوم :
خان صاحب کو اپنی عقل پر انتاغرور ہے کہ وہ عظیم نبی ابراہیم علیہ السلام پر بھی یہ بہتان تراشی کرتے ہیں کہ وہ وحی الہی کو صحیح طور سے نہیں سمجھ سکتے تھے ، اللہ کی لعنت ہو ایسی عقل پر جو انبیاء علیہ السلام پر بھی استدراک کرے ، کیا اب بھی لوگوں کو دلیل چاہئے کہ خان صاحب دین میں کیسی مداخلت کرتے ہیں۔

چہارم:
خان صاحب کا مطالعہ غیراسلامی افکار نطریات پر تو بہت وسیع ہے مگر خالص اسلام سے متعلق ان مطالعہ بہت ہی محدود ہے ، ورنہ یہ بچکانہ بات ہرگزنہ کرتے کہ خواب ابراہم سے مراد اپنی اولاد کو مکہ میں‌ بسانا ہے کیونکہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ مکہ میں بسنے کے بعد خواب دکھلایا گیا تھا۔

No comments:

Post a Comment